HERE YOU CAN SEARCH FOR THE NOVELS LINKS

Google Play app

Get it on Google Play

Sunday, 11 March 2018

Judai Article by Maryam Sheikh

Judai Article by Maryam Sheikh

"جدائی" از مریم شیخ"
جیسے ہی شام کے سائے گہرے ہوتے ہیں وہ وجود مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے ۔میری ساری سوچیں ایک ہی نقطے پر جم جاتی ہیں ۔میرا سینہ انسانی وجود کے بوجھ سے آزاد ہونے پر آہ وزاری کرتا ہے ۔دھڑکنیں رک رک کر چلتی ہیں ۔ان ہونٹوں سے نکلنے والی آواز مجھے اپنی جانب بلاتی ہے ۔وہ بازو مجھے خود میں سمونے سے قاصر ہو جاتے ہیں ۔اس وجود  میں پھیلی تکلیف مجھے اپنے وجود میں محسوس ہوتی ہے ۔ان آنکھوں کی ویرانی قطرہ قطرہ میرے وجود میں اترتی چلی جاتی ہے۔  جدائی کا ناگ خاموشی سے مجھے ڈستا جا رہا ہے
میں اس سب سے بھاگنا چاہتی ہوں ۔دماغ سے بھاگوں تو دل پر بھی انہی کا بسیرا ہے ۔میں ہر طرف سے بے بس ہوں ۔میں اس تکلیف کو بھول کر حسین لمحوں کی تسکین محسوس کرنا چاہتی ہوں۔مگر میری ساری سوچیں نا جانے کدھر چلی جاتی ہیں ۔وہ حسین لمحات نا جانے کس آسیب کے سحر میں کھو گئے ہیں، بھولے سے بھی یاد نہیں آتے ۔
آنکھوں میں ایک ہی موسم ٹہرا گیا ہے۔
صرف جدائی کا موسم ۔
میں کیا کروں اس جدائی سے بھی تو جان نہیں چھڑوائی نا جا سکتی ۔
وہی لمحات تو یادگار بچےہیں میرے پاس اس کے ۔جب وہ میرے قریب تر تھے ۔کیا جدائی بھی اتنی قربت سے بھرپور ہوتی ہے؟ یہ کیسی جدائی ہے جو اپنے غم سے نجات کے پیچھے اپنے محب کو عمر بھر کا انتظار اور تکلف دے جائے ۔مجھے اس لمحے سے عشق ہے جب وہ وجود میرے سینے پر سر رکھے سو رہا تھا مگر کمبخت اس جدائی کو یہ خوشیوں سے نجانے کا بیر ہے جو لمحوں میں ہی اس میٹھی نیند کو ہمیشہ کی نیند دے دی ۔نا جانے ازل سے عشق کی کسی سے کیوں نہیں بنی ۔کبھی کوئی وقت نکال کے اس تنہائی سے پوچھے اسے کیا مسئلہ ہے ملن سے؟ کبھی کوئی اسکے دکھ بھی تو سنے نا ۔ پتا ہے کیا میری باتیں سن کر جدائی دھیمے سے میرے کان میں کیا کہا؟ اسے بھی کسی سے عشق تھا ۔۔ بالکل ایسا ہی جو اس کی کل کائنات تھا بلکل اسی طرح وہ بھی بے مراد ٹہری۔
اس دن سے اس نے ٹھان لیا ہے کبھی کسی کو عشق نہیں کرنے دے گی ۔ پتا ہے کیوں جب جب کوئی عشق میں روتا ہے یہ جدائی روتی ہے وہ خود کو ہی کھانا شروع کر دیتی ہے ۔عشق سے اسکی لڑائی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک دن وہ عشق سے لڑے بغیر خاموشی سے اس کے وجود پر سایہ کر دیتی ہے ۔بنا کچھ کہے بولے ۔کہ عشق کا مقدر جو جدائی ٹہرا
۔اور جدائی کا کام ہی بچنا ۔ سوچتی ہوں تو ٹھیک کہتی ہے جدائی بھی ۔مگر پھر یہی سوچ قابض ہو جاتی ہے کہ اپنے دکھ کا بدلہ کسی اور سے لینا کہاں کا انصاف ہے ۔ضروری ہے کہ اگر یہ نامراد ٹہری ہے تو ہر کوئی خالی ہاتھ ہی رہے ۔ جدائی کو کیوں لگتا ہے کہ وہ درد سے بچا رہی ہے ۔ لیکن وہ بھول جاتی ہے وہ تو تاعمر درد کی راہ دکھا رہی ہے
۔ ہے کوئی شیر دل تو آئے اور لڑے اور روک دے اس جدائی کو ۔ میں تو بہت مضبوط تھی ۔سکھی تھی جدائی میری ۔مگر ادھر تو اس نے میرے سے بھی یاری نہیں نبھائی ۔کوئی ہے؟ تو آ جائے روک لے اسے ۔بچا لے اپنی محبتوں کو . خاموشی ہی ہے ہر طرف شاید کوئی بھی اتنا مضبوط نہیں ۔ پتا ہے آسمان پر پورے غرور سے چمکتا چاند کیا کہہ رہ ہے؟ کہتا ہے اس سے لڑنا چھوڑ دو ۔ جدائی سے لڑو گے تو یہ اور جدا کر گی ۔بلکل اسی طرح جس طرح اس سے تارے چھپا لیتی ہے ۔تو کبھی سورج کو اسکی جگی دے دیتی ہے ۔یہ کسی کی نہیں ہوتی ۔ میں نے سن لی ہے اسکی بات ۔ چلو مان لیا جدائی جیت گئی ۔ مگر اب یہ پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی ۔ چھین لیا اب جائے رہے خوش ہو کر اس نے ایک انسان کو مرنے سے بچا لیا ۔ مگر اسکا دل کیوں نہیں بھرتا ۔ یہ کیوں اب یادوں میں بھی حاوی ہونا چاہتی ہے ۔کیوں صرف دکھی لمحات کو یاد رکھنے پر اکساتی ہے ۔اسے سمجھائے کبھی کوئی ۔اسکا تو نام جدائی ہے یہی اسکا مقدر ٹہرا ۔ مگر میرا نام تو عشق ہے ۔یہ میری گھٹن تو بڑھا سکتی ہے ۔مگر میری دھڑکن نہیں روک سکتی ۔عشق میں تو مر کر بھی جینے کی امنگ ہوتی ہے ۔یہ کس بھول میں ہے ۔اسے بتاؤ یہ جیت کر بھی ہار گئ ہے
مگر ہاں اگر غم سے اسکی علیک سلیک ہے
تو انہیں کہو اسے سمجھائیں
یہ دوستی نبھانے دے ۔
غم قبول ہیں
مگر ہائے یہ جدائی نہ آئے



 ازقلم مریم شیخ

No comments:

Post a Comment